AURA
انسان کے حوالے سے AURA کی دریافت نے تحقیق کے نئے دَر وَا کئے ہیں۔ ایک دور میں انسان نے روح کو غیر مرئی (Invisible) کہہ کر علم کی حدود سے خارج کر دیا تھا اور فقط مادی جسم کو آخری حقیقت قرار دینے والے سائنسدانوں نے ہی بالا آخر اٹھارویں صدی کے آخر میں تسلیم کیا کہ ایک لطیف قسم کی توانائی ہمارے جسم میں سرایت کئے ہوئے ہے۔ انسان کے روحانی باطنی تشخص کا انکار کرنے والے سائنسدانوں نے بلآخر 1930ء میں انسان سے جڑے اس کے لطیف وجود کی تصویر کشی بھی کر لی۔ اس لطیف وجود کا نام انہوں نے AURA رکھا۔ اسی میدان میں مزید تحقیقات جاری ہیں اور مزید Subtle Bodies اور چکراز کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ آج سائنسدانوں نے ایٹم کی طرح انسان کے اندر بھی ایک جہان تلاش کر لیا ہے اور یہ دریافتیں ابھی جاری ہیں۔
مادے کو آخری حقیقت کہنے والے اب ہر شے کے پس منظر میں اس کا نورانی تشخص تلاش کر رہے ہیں جو مفروضوں کو خارج از علم قرار دے رہے تھے وہ کہہ رہے ہیں کہ کائنات ایسے اسرار سے بھری پڑی ہے جو تجربے کی زد میں نہیں لیکن آج ہم انہیں کھلی آنکھ سے دیکھ کر انکا انکار بھی نہیں کر سکتے۔ آج انسان پر ہر پہلو سے تحقیق و تجربات ہو رہے ہیں اور ساتھ ہی انسان کو حیوان ثابت کرنے کی جدوجہد بھی جاری ہے۔ اگرچہ نتائج سوفیصد خلاف ہی جا رہے ہیں اسی جدو جہد سے تخلیق کے شواہد مل رہے ہیں۔ روح، نفس اور مادی جسم پہ بھی تحقیقات جاری ہیں۔
ذہن، مادی جسم، روح، نفس یا AURA چکراز تمام کی الگ حیثیتوں اور خصوصیات کے علاوہ بحیثیت مجموعی انسان کی بے شمار خصوصیات بھی ہیں اور انہی خصوصیات کے بل پر ترقی کی اوج پر بیٹھا انسان آسمانوں تک جا پہنچا۔ اس ذہین ترین انسان کی یہ تمام تر صلاحیتیں اس کی کُل صلاحیتوں کا محض پانچ سے دس فیصد ہیں۔ تو پھر اس حیرت انگیز انسان کی باقی پچانوے فیصد صلاحیتیں کہاں پوشیدہ ہیں اور آخر کیوں بے خبر ہے انسان اپنی ان بے پناہ صلاحیتوں سے ؟ اور یہ روح، نفس اور جسم آخر کیا ہیں ؟ کیا اور کیسا تعلق ہے ان کا انسان سے ؟ اور بحیثیت مجموعی انسان کیا ہے ؟
ہزاروں برس کی مسلسل تحقیق و جستجو کے باوجود یہ تمام سوال تشنہ ہیں۔ آج انسان کی تعریف کرنا جوئے شِیر لانے سے کہیں بڑھ کر ہے۔ علمیت کے دعوے کرنے والا انسان آج تک خود کو نہیں جان پایا! آج انسان اپنی تعریف کرنے سے قاصر ہے۔
افسوس! صدیوں کا انسان آج بھی ماوریٰ کی صف میں بے
نشان کھڑا ہے !
ہومیوپیتھک ڈاکڑ فتحیاب علی سید بی ایس سی (غذا اورغذائیت)ڈی ایچ ایم ایس[ 1974 لاہور]آر ایم پی (نیشنل کونسل فار ہومیوپیتھی حکومت پاکستان
www.nutritionisthomeopath.blogspot.com
No comments:
Post a Comment