Saturday, February 9, 2013

Clinical MEDITATION



MEDITATION میڈیٹیشن) مراقبہ( کے طبی فوائد بیشمار
واشنگٹن …مراقبے کو جہاں ذہنی سکون کے لیے بیحد مفید تصور کیا جاتا ہے وہیں اسکے طبی فوائد بھی بیشمار ہیں۔حال ہی میں سامنے آنے والی ایک تحقیق کے مطابق مراقبے کرنے سے ناصرف دل کے دورے بلکہ فالج کے حملے کے خطرات بھی 50تک فیصد کم ہوجاتے ہیں۔امریکی انسٹیٹیوٹ کے ماہرین کی اس تحقیق میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ مراقبہ کرنے سے ناصرف ہائی بلڈ پریشر میں کمی واقع ہوتی ہے بلکہ کولیسٹرول کی سطح بڑھنے اور شریانیں بھی پھولنے سے محفوظ رہتی ہیں۔ماہرین کے مطابق تناؤ دل کے امراض کی ایک اہم وجہ ہے جبکہ مراقبے سے تناؤ پرباآسانی قابو پایا جاسکتا ہے۔میڈیکل کالج آف Wisconsinکے ماہرین نے اس تحقیقی مطالعے کے لیے 59سال کی اوسط عمر پر مشتمل200خواتین اور مرد وں کو زیرِ نگرانی رکھاجن میں سے نصف کو مراقبے اور نصف کو عام علاج معالجے،ڈائیٹ اور معمول کی ورزشیں کروائیں۔اس عملی تجربے سے حاصل ہونے والے نتائج کے مطابق مراقبہ کرنیوالے نصف رضاکاروں میں دوسروں کی نسبت دل کے دوروں اور فالج کے خطرات47فیصدتک کم پائے گئے۔
روزانہ مراقبے سے ذہنی سکون اور ارتکاز توجہ کا حصول ہوتا ہے
ماہرین طب نے اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ روزانہ مراقبہ کرنے سے جہاں زندگی پرامن ہو جاتی ہے وہاں ارتکاز توجہ کی صلاحیت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا ڈیوس کی پروفیسر کتھیرائن میکلین اور ساتھی ایڈوائزر کلیفورڈ سورن کی مشترکہ تحقیق میں بدھ مت سے تعلق رکھنے والے 30 مراقبہ کرنے والوں کا تجزیہ کیا گیا۔ تحقیق کے دوران بدھ سکالر بی ایلاٹن والیس نے رہنمائی فراہم کی۔ تحقیق میں شامل مراقبہ کرنے والوں کو ایک ٹیسٹ سے گزارا گیا تھا۔ کمپیوٹر سکرین پر 5 مختلف تصویریں دکھا کر ان کی پہچان اور بصری توجہ کو مشینوں کے ذریعہ ناپا گیا۔ ماہرین نے دیکھا کہ مراقبہ کرنے والے لوگوں نے مراقبہ نہ کرنے والوں کی نسبت عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اس تحقیق کے مکمل نتائج اور طریقہ کار کو جریدے ''سائیکالوجیکل سائنس'' نے شائع کیا ہے۔ 
نئی تحقیق کے مطابق یوگا اور مراقبے سے سانس کی بیماریوں اور دمہ سے نجات میں مدد مل سکتی ہے۔ امریکی یونیورسٹی کی جانب سے کی گئی تحقیق کے مطابق مختلف علاقوں میں دمے اور سانس کی بیماریوں میں مبتلا کئی افراد کی صحت کا جائزہ لیا گیا۔ ان لوگوں نے بیماری پر قابو پانے کیلئے یوگا سے مدد لی۔ تحقیق کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ یوگا اور مراقبے سے سانس کی بیماریوں اور دمہ پر کنٹرول میں مدد مل سکتی ہے۔
واﺷﻨﮕﭩﻦ دﻧﯿﺎوی اﻓﮑﺎر ﺳﮯ ﯾﮑﺴﻮﺋﯽ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﻧﮯ واﻻ ﻣﺮاﻗﺒہ دﻣﺎغ ﮐﯽ
ﺻﻼﺣﯿﺘﻮں ﮐﻮ ﺑﮯ ﭘﻨﺎﮦ ﺑﮍھﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺪدﮔﺎر ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﺧﺎص ﻃﻮر ﭘﺮ ارﺗﮑﺎز
ﺗﻮﺟہ اور ﺑﮩﺖ زﯾﺎدﮦ ﻓﻌﺎﻟﯿﺖ ﮐﮯ دﻣﺎﻏﯽ ﻣﺮض ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺑﭽﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ اس ﻣﺮاﻗﺒہ ﮐﻮ “آﺋﯽ اﯾﻢ
ﺗﮑﻨﯿﮑﺲ” ﮐﺎ ﻧﺎم دﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔ ﺟﺎرج واﺷﻨﮕﭩﻦ ﯾﻮﻧﯿﻮرﺳﭩﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﺨﻠﯿﻘﯽ آﻣﻮزش ﮐﮯ ﻣﺎﮨﺮاور
ﭘﺮﻧﺴﭙﻞ اﻧﻮﯾﺴﭩﯽ ﮔﯿﭩﺮ ﭘﺮوﻓﯿﺴﺮ ﺳﺎرﯾﻨﺎ ﺟﮯ ﮔﺮوس واﻟﮉ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮨﮯ ﮐہ ﻣﺮاﻗﺒہ ﮐﯽ ﯾہ ﺗﮑﻨﯿﮏ ﻣﺸﮑﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﻮ اﻧﺴﺎن ﮐﻮ ﺳﯿﮑﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﻋﻤﻞ ﮐﯽ ﭘﮩﭽﺎن ﮐﺮاﺗﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﯾہ ﺗﮑﻨﯿﮏ ﺗﻮﺟہ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑہ دﻣﺎغ ﮐﻮ ﮐﻨﭩﺮول ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﻃﺮﯾﻘہ اور ﻣﺸﻖ ﮐﺮاﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺟﺲ ﺳﮯ وﮦ اﯾﮏ ﻣﻨﻈﻢ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ آﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺧﺎص ﻃﻮر ﭘﺮ ﺗﺸﻮﯾﺶ، ڈﭘﺮﯾﺸﻦ اور ﺑﭽﻮں ﻣﯿﮟ ﺗﻮﺟہ ﮐﯽ ﮐﻤﯽ ﮐﮯ
ﻣﺴﺌﻠہ ﻣﯿﮟ ﯾہ ﺑﮩﺖ ﮐﺎرﮔﺮ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ۔ اﻧﮩﻮں ﻧﮯ دﻣﺎﻏﯽ ﺑﯿﻤﺎری “اے ڈی اﯾﭻ ڈی” ﺳﮯ ﻣﮑﻤﻞ اﻓﺎﻗﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ان ﺗﮑﻨﯿﮑﺲ ﮐﻮ ﻣﺠﺮب ﻗﺮار
دﯾﺎ ﮨﮯ ﺟﻦ ﮐﻮ ﺳﺎﺋﯿﮑﺎﭨﺮی ﺟﺮﯾﺪے “ﻣﺎﺋﻨﮉ اﯾﻨﮉ ﺑﺮﯾﻦ” ﻧﮯ اﭘﻨﯽ ﺗﺎزﮦ اﺷﺎﻋﺖ ﻣﯿﮟ ﺟﮕہ دی ﮨﮯ
درد ﮐﻮ دور ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﻣﺮاﻗﺒہ اﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﻣﺆﺛﺮ ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ،اﻣﺮﯾﮑﯽ ﺗﺤﻘﯿﻖ
ﻧﯿﻮﯾﺎرک…ﺟﺴﻢ ﻣﯿﮟ دردﮨﻮﺗﻮ۔اس ﮐﮯ ﻟﯿﮯ اﻧﺴﺎن درد دور ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ادوﯾﺎت ﻟﯿﺘﺎﮨﮯ ۔
ﺗﺤﻘﯿﻖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ درد ﮐﻮ دور ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﯿﮉﯾﭩﯿﺸﻦ ﯾﺎ ﻣﺮاﻗﺒہ اﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﻣﺆﺛﺮ ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ
ﮨﮯ۔اﻣﺮﯾﮑﯽ رﯾﺎﺳﺖ ﺷﻤﺎﻟﯽ ﮐﯿﺮوﻻﺋﻨﺎ ﮐﯽ وﯾﮏ ﻓﺎرﺳﯿﭧ ﯾﻮﻧﯿﻮرﺳﭩﯽ ﮐﮯ رﯾﺴﺮچ ﮐﮯ
ﻣﻄﺎﺑﻖ اﻧﺴﺎﻧﯽ ﺟﺴﻢ ﻣﯿﮟ درد ﮐﻮ دور ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﯾﻮﮔﺎ،ﻣﯿﮉﯾﭩﯿﺸﻦ ﯾﺎ ﻣﺮاﻗﺒہ اﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﻣﺆﺛﺮ
ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ۔ﺗﺤﻘﯿﻖ ﻣﯿﮟ درد ﻣﯿﮟ ﻣﺒﺘﻼ57 اﻓﺮاد ﮐﻮ ﺑﯿﺲ ﻣﻨﭧ ﺗﮏ ﻣﯿﮉﯾﭩﯿﺸﻦ ﻣﯿﮟ ﻣﺼﺮوف
رﮐﮭﺎﮔﯿﺎ۔ﺟﻮ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ درد ﻣﯿﮟ ﺣﯿﺮت اﻧﮕﯿﺰ اﻧﺪاز ﻣﯿﮟ ﮐﻤﯽ واﻗﻊ ﮨﻮﺋﯽ۔ﻣﯿﮉﯾﭩﯿﺸﻦ ﺳﮯ ﻣﺜﺒﺖ
اﺛﺮات اﻧﺴﺎﻧﯽ دﻣﺎغ ﭘﺮ ﻣﺮﺗﺐ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔

میڈیٹیشن سے درد رفع کریں

انسانی بدن میں درد کو دور کرنے کے لیے کئی ادویات موجود ہیں۔ شدید اور ناقابل برداشت درد کی صورت میں مارفین کےانجیکشن بھی ڈاکٹر کی جانب سے مریض کے لیے تجویز کیےجاتے ہیں۔

امریکی ریاست شمالی کیرولائنا کے شہر ونسٹن سالم میں واقع ویک فارسیٹ یونیورسٹی کے ریسرچ ہسپتال ویک فارسٹ باپٹسٹ میڈیکل سینٹر کے محقق ڈاکٹر فیدل زیدین کی ایک تحقیق معتبر جریدے ’جرنل فار نیورو سائنس‘ میں شائع ہوئی ہے۔ اس میں زیدین نے تجویز کیا ہے کہ انسانی جسم میں درد کو دور کرنے کے لیے میڈیٹیشن یا مراقبہ انتہائی مؤثر ہو سکتا ہے۔ بھارت سے مراقبےکے لیے یوگا کی اصطلاح بھی متعارف ہونے کے بعد مقبول ہو چکی ہے۔ مسلم معاشرے میں اس عمل کو مراقبہ قرار دیا جاتا ہے۔ مسلمان صوفیاء میں بھی یہ مروج رہا تھا۔
ڈاکٹر فیدل زیدین نے اپنی تحقیق کے عمل کے دوران درد میں مبتلا افراد کو بیس منٹ تک میڈیٹیشن میں مصروف رکھا۔ بعد میں ان افراد کے بدن میں پائے جانے والے درد میں حیرت انگیز انداز میں کمی واقع ہو چکی تھی۔ ریسرچر زیدین کے مطابق میڈیٹیشن سے انسانی جسم کے اندر درد کو برداشت کرنے کی قدرتی قوت پیدا ہوتی ہے۔ اس ریسرچ کے دوران ڈاکٹر زیدین نے کل ستاون مریضوں کو میڈیٹیشن کے عمل سے گزارا جو ایک کامیاب تجربہ تھا۔ اپنی تحقیق کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ میڈیٹیشن کے انتہائی مثبت اثرات انسانی دماغ پر مرتب ہوتے ہیں اور اس مثبت طریقے سے شدید درد میں آفاقہ میسر ہو سکتا ہے۔
میڈیکل ریسرچ کے مطابق یہ واضح ہے کہ شدید درد میں تجویز کیا گیا مارفین کا انجیکشن بھی صرف پچیس فیصد درد رفع کرنے کی پوزیشن میں ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ درد میں مبتلا افراد کو انتہائی طاقتور کلینکل ٹیسٹ کا بھی سامنا ہو سکتا ہے۔ ان ٹیسٹوں میں ممکنہ طور پرMRI شامل کیا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر فیدل زیدین نے اپنی ریسرچ کے حوالے سے یہ بھی بتایا کو میڈیٹیشن کرنے والے اصحاب میں ایک اور اہم پیش رفت یہ بھی دیکھی گئی کہ ان میں یاسیت یا پژمُردگی کی جگہ مسرت اور خوشی کے احساست جنم لیتے ہیں۔ ڈاکٹر زیدین کے مطابق شدید درد میں مبتلا افراد کو اگر طاقتور ادویات دی جائیں تو اس کے منفی اثرات بھی پیدا ہوتے ہیں اور ان میں شدید یاسیت کی لہر پیدا ہوجاتی ہے۔ ان کے مطابق میڈیٹیشن کے لیے کوئی بھی طریقہ کار استعمال کریں وہ درست ہے۔ اصل میں ذہنی ارتکاز اہم ہے۔ یورپ اور جنوبی ایشیاء سمیت امریکہ اور آسٹریلیا میں خاص طور یوگا کو بھی میڈیٹیشن کے طور پر لیا جاتا ہے۔
مراقبہ اور سکون 
جدید طبی تحقیق کے مطابق طبیعت کو خوشگوار بنانے اور پرسکون رہنے کیلئے استعمال کی جانے والی ادویات سے زیادہ مراقبہ کا عمل زیادہ بہتر ہے۔بدھ مت کی تعلیمات کے تحت کئے جانے والے مراقبے کے مثبت اثرات سامنے آئے ہیں۔دوا کھانے والے گروپ کی نسبت مراقبہ کرنے والوں کو ۴۷ فیصد زیادہ آفاقہ حاصل ہوا۔ ”مائینڈ فل نیس بیسڈ کاگنیٹیو تھراپی“ کے تحت اس مراقبے کے تحت دیکھا گیا کہ ماضی کے تلخ تجربات اور یادوں کو کم کیا جاسکتا ہے اور مستقبل کی بہتر منصوبہ بندی بھی ،جبکہ دوسری جانب ادویات کے مضر اثرات سے مزید پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔اس تحقیق کو پروفیسر ولیم کیوکین نے مرتب کیا ہے جو ایگزیئر یونیورسٹی موڈ ڈس آرڈر سنٹر میں مکمل کی گئی۔تحقیق کے مطابق اس متبادل طریقہ علاج سے جہاں صحت کو کم خطرات لاحق ہوتے ہیں وہاں دواؤں پر اٹھنے والے اخراجات بھی ختم ہوسکتے ہیں۔


No comments:

Post a Comment